ان شاء اللہ
ان شاء اللہ (انگریزی: Inshallah) عربی زبان کا فقرہ ہے جس کا مطلب ہے ”اگر اللہ نے چاہا“ یہ جملہ فقرہ یا اصطلاح قران کریم میں بھی مذکور ہے۔قرآن کریم میں یہ سورۃ 37فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾ آیت 102 ، اور (سورۃ 18قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا ﴿۶۹﴾ آیت 23 اور24)میں مذکور ہے۔جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کو لازمی بولا کریں۔ اصطلاح مسلمان، عرب عیسائی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے عربی عام استعمال کرتے ہیں۔جدید عبرانی زبان بولنےو الے خاص طور پر سیکولر اسرائیلی بھی اس اصلاح کو بولتےہیں۔
مزید دیکھیے
- توَہْم پرستی ، بدفالی ، بدشگونی کیسی خطرناک باطنی بیماری ہے اور یہ آج بھی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں سے لے کر بڑے بڑے ترقی یافتہ کہلانے والے ملکوں تک پھیلی ہوئی ہے ، اب اسلامی تعلیمات کا کمال دیکھئے کہ اسلام نے ہمیں اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم کہنا سکھایا ، قرآنِ کریم کی صِرْف ایک آیت کے ایک جُزْ میں حکم دیا گیا کہ کسی بھی کام کا ارادہ کرنا ہو ، اس کے ساتھ اِنْ شَآءَ اللہ لازمی کہا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ اگر اللہ پاک نے چاہا تو میں اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ اسلام کی صِرْف اس ایک تعلیم نے ان تمام وَہْم پرستیوں کی ، تمام بدشگونیوں کی کاٹ کر دی۔ سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے اسلام کی جامعیت اور یہ ہے اسلام کی عالمگیر ، پاکیزہ اور خوش گوار تعلیم۔ اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج سے اپنا یہ پَکَّا ذہن بنا لیجئے کہ اب جب بھی کسی کام کا ارادہ کریں گے ، ساتھ میں اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم لازمی کہا کریں گے اور یہ یقین رکھیں گے کہ اللہ پاک نے چاہا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرے راستے میں رکاوٹ نہیں بَنْ سکتی۔
ایک اَور بات وہ یہ کہ ہمارے ہاں بہت لوگوں کو دُرُسْت اِنْ شَآءَ اللہ کہنا نہیں آتا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عربی کا لفظ ہے تو یقیناً عربی ہی میں ادا کیا جائے گا ، اس کے آخر میں ھا آتی ہے عموماً لوگ آخر میں ھا کی جگہ الف پڑھتے ہیں ،اس بات کا خیال رکھا جائے۔
حوالہ جات
ایمان بالکتب، یعنی اللہ تعالیٰ کی اپنے نبیوں پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔
ایمان بالکتبترميمحضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک جتنے بھی انبیا کرام مبعوث ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض پر کتابیں اور بعض پر صحائف اتارے، ان تمام صحیفوں اور کتابوں (یعنی ان کے منزل من اﷲ ہونے) پر ایمان لانا ایمان بالکتب ہے۔
مشہور آسمانی کتابیںترميماللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانے میں مختلف قوموں کی ہدایت کے لیے صحیفے اور کتابیں نازل کی ہیں، ان میں سے چار مشہور کتابیں یہ ہیں، جو اللہ نے اپنے پیغمبروں پر نازل فرمائیں۔
توریتترميمتوریت سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
زبورترميمزبور سیدنا داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
انجیلترميمانجیل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
قرآن مجیدترميمقرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری اور افضل و اکمل کتاب ہے، جو اس نے سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی۔
سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریفترميمآج روئے زمین پر قرآن حکیم کے علاوہ دوسری آسمانی کتابیں، تورات، انجیل، زبور اور دیگر آسمانی صحائف میں سے کوئی بھی اصلی حالت میں موجود نہیں۔ پہلی قوموں کے لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق ان کتابوں کے احکامات میں تبدیلی کر دی، لیکن قرآن حکیم ایک ایسی بے مثل کتاب ہے، جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[1]’’بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
“قرآن حکیم ہی وہ کتاب ہے جو قیامت تک بنی نوع انسانی کے لیے کامل ہدایت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔
سابقہ کتب بارے حکمترميمقرآن حکیم کے نزول کے بعد سابقہ کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن ان کے احکامات پر عمل کرنے کا حکم باقی نہیں رہا کیونکہ قرآن حکیم سے پہلے کوئی بھی آسمانی کتاب عالمگیر اور آفاقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔ تمام سابقہ کتب ایک خاص قوم کی رہنمائی کے لیے آئی تھیں۔ نزول قرآن سے پہلے تمام مذاہب اختلافات کا شکار تھے اس وجہ سے ہر مذہب کے پیروکار اپنے ہی عقیدے کو صحیح سمجھتے تھے، لہٰذا اس وقت کا تقاضا تھا کہ کوئی ایسی کتاب نوع انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہو جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہو اور اس کے احکامات آفاقی ہوں۔ اس لیے قرآن حکیم میں اللہ تعالٰیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ :
”إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ[2]’’یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لیے نصیحت ہی تو ہے۔‘‘
“لہٰذا قرآن حکیم قیامت تک آنے والے سب انسانوں کے لیے ہدایت و رہنما